۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ یہ آیت وراثت کے اصولوں کے بارے میں ہے، جو اولاد اور والدین کے درمیان جائیداد کی تقسیم کے اسلامی قانون کو بیان کرتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا. سورۃ النساء: آیت ۱۱

ترجمہ: اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تواس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کوچھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے۔

موضوع:

یہ آیت وراثت کے اصولوں کے بارے میں ہے، جو اولاد اور والدین کے درمیان جائیداد کی تقسیم کے اسلامی قانون کو بیان کرتی ہے۔

پس منظر:

سورۃ النساء کی یہ آیت اسلامی وراثت کے قوانین کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ آیت مسلمانوں کو ان کے والدین اور اولاد کے حقوق اور جائیداد کی تقسیم کے اصولوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب مسلمانوں کو جاہلی عرب کے غلط وراثتی نظام کی بجائے ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام کی ضرورت تھی۔

تفسیر :

1. اولاد کی وراثت: آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی کی اولاد ہو تو لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملے گا۔

2. صرف لڑکیاں ہوں تو: اگر مرنے والے کی صرف لڑکیاں ہوں اور وہ دو یا دو سے زیادہ ہوں، تو انہیں ترکے کا دو تہائی حصہ دیا جائے گا۔

3. ایک لڑکی ہو تو: اگر صرف ایک لڑکی ہو، تو اسے آدھا حصہ دیا جائے گا۔

4. والدین کی وراثت: اگر مرنے والے کی اولاد ہو تو والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر اولاد نہ ہو اور صرف والدین ہی وارث ہوں، تو ماں کو ایک تہائی حصہ دیا جائے گا۔

5. بھائی بہن ہوں تو: اگر مرنے والے کے بھائی بہن بھی ہوں، تو ماں کا حصہ چھٹا حصہ ہوگا۔

6. وصیت اور قرض کی اہمیت: یہ سب وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔

7. اللہ کا علم اور حکمت: اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں یہ بتایا ہے کہ وہ علم والا اور حکمت والا ہے، اور اس کے احکامات میں حکمت اور عدل ہے۔

اہم نکات:

• وراثت میں لڑکے اور لڑکی کے حصے کا فرق ذمہ داریوں کی بنیاد پر ہے۔

• والدین کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا ہے، اور مختلف حالات میں ان کے حصے کا تعین کیا گیا ہے۔

• وصیت اور قرض کی ادائیگی کو وراثت کی تقسیم سے پہلے قرار دیا گیا ہے۔

نتیجہ:

یہ آیت اسلامی قوانین کے مطابق وراثت کی تقسیم کے واضح اصول فراہم کرتی ہے۔ اس میں انصاف اور حکمت کے ساتھ جائیداد کی تقسیم کے قوانین بتائے گئے ہیں جو معاشرتی عدل و انصاف کو یقینی بناتے ہیں۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ النساء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .